ترجمان نے مسلکی مسئلے کوسیاسی مسئلہ کے طورپرپیش کرنے پرمیڈیاکولتاڑا، جلدپیش ہوگا ادارے کاموقف
لکھنؤ، 10؍جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )ایشاء کی عظیم دینی وتربیتی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے حال ہی میں ڈھاکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سرخیوں میں آئے مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف اپنے دئے گئے فتووں کا میڈیا کی طرف سے مختلف طرح سے استعمال کئے جانے پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔دارالعلوم دیوبند کے ترجمان اشرف عثمانی نے آج بات چیت میں کہا کہ کچھ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز میں ذاکر نائیک کے خلاف دیوبند کے فتووں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔نائیک کے دہشت گردوں سے تعلقات ثابت کرنے کی کوشش کے دوران یہ بتایا جا رہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند بھی ان کے خلاف فتوی جاری کر چکا ہے۔یہ کسی ایک سلسلے میں کہی گئی بات کو دوسرے حوالہ جات میں استعمال کرنے جیسی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ دارالعلوم نے صرف مسلک(مسلمانوں کے طبقوں) سے منسلک کچھ معاملات کو لے کر نائیک کے خلاف فتوی جاری کئے ہیں۔ایسے میں میڈیا کی طرف سے نائیک کے دہشت گردوں سے تعلقات کی خبریں بتاتے وقت ان فتووں کا ذکر کرنا غلط اور قابل اعتراض ہے۔عثمانی نے کہا کہ رمضان کے بعد عید کی مصروفیات کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کو نائیک کے معاملے میں اپنا رخ طے کرنے کا وقت نہیں ملا ہے۔ادارہ اس پورے معاملے کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد دو تین دن کے اندرمیٹنگ کر کے اس بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشیدفرنگی محلی کے مطابق ذاکر نائیک کا محاصرہ ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔اسے ٹٹولا جا رہا ہے کہ مسلمانوں میں اب کتنا اتحاد باقی رہ گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے نائیک کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی متعین کی ہے،وہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں،آپ کو جس پر شک ہو، اس کی تحقیقات ہو لیکن اس کی رپورٹ آنے سے پہلے جس طرح سے نائیک کی کردار کشی کی جا رہی ہے، اسے کیسے جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے۔دنیا کے بڑے بڑے اسلامی تحقیقی اداروں میں شمار کیے جانے والے ادارے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر اشتیاق احمد جلی نے کہا کہ نائیک نے کس تناظر میں کیا کہا، اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی بھی شخص کو ملک کے قاعدے قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہنے کا حق ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کسی بھی متنازعہ معاملے کو لے کر جج کے کردار میں آ جاتا ہے۔یہ عدالت لگانا ٹھیک نہیں ہے۔